ریڈ لائن بس منصوبے میں تاخیر سے 98 ارب روپے کا جھٹکا
حکومت سندھ کی نااہلی اور بدانتظامی کے باعث کراچی کا ریڈ لائن بس منصوبہ بروقت مکمل نہ ہونے کے باعث سرکاری خزانے کو تقریباً 98 ارب روپے کا جھٹکا لگ چکا ہے۔ آئندہ ماہ جون میں مکمل ہونے والے مذکورہ منصوبے کو مکمل کرنے کی مدت میں دو برس کا اضافہ ہونے کے باوجود بھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ آئندہ دو برس میں یہ منصوبہ مکمل ہوسکے گا۔ اور اس کی لاگت میں مزید کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ مذکورہ منصوبے کی تعمیر کے لئے یونیورسٹی روڈ کی کھدائی کرکے حکومت بھول گئی ہے۔ جس کے باعث آئے دن حادثات بڑھ رہے ہیں۔ جس میں کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے حکام بھی اس منصوبے کو خطرے سے دوچار قرار دے چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت فراہم کرنے کے لئے بی آر ٹی کے تحت گرین لائن ، اونج لائن، ریڈ لائن ، یلو لائن اور بلو لائن کے منصوبے شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ جن میں سے ملیر ہالٹ سے براستہ صفورہ چورنگی، موسمیات، یونیورسٹی روڈ سے نمائش تک ریڈ لائن منصوبے کی منظوری جولائی 2019 میں دی گئی۔ مذکورہ منصوبے کی تکمیل کی مدت پانچ برس میں تھی۔ وہ پانچ برس آئندہ ماہ جون میں ختم ہورہے ہیں۔ لیکن ابھی تک مذکورہ منصوبے پر بمشکل 15 فیصد کام ہوسکا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضے سے شروع کئے گئے اس منصوبے کے متعلق افسوسناک بات یہ ہے کہ جب مذکورہ منصوبے کی منظوری دی گئی تھی تو اس وقت اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 80 ارب روپے تھا۔ اور اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً 160 روپے تھی۔ لیکن بروقت منصوبہ مکمل نہ ہونے کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 278 روپے ہوجانے کے باعث اس منصوبے کی لاگت میں تقریباً 59 ارب 35 کروڑ روپے کا ویسے ہی اضافہ ہوا۔ اور مہنگائی کی شرح بڑھنے، سامان مہنگا ہونے کے باعث اب نظر ثانی شدہ تخمینہ کے مطابق مذکورہ منصوبے کو اب مکمل کرنے پر ہونے والی لاگت 50 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے بجائے 64 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اس طرح حکومت سندھ کی نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 13 کروڑ 90 لاکھ ڈالر یعنی 38 ارب 64 کروڑ روپے بڑھ گیا ہے۔ بروقت منصوبہ مکمل نہ ہونے کے باعث پہلے کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید گرنے اور منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے سرکاری خزانے کو تقریباً 98 ارب روپے کا جھٹکا لگ چکا ہے۔ اور اب ریڈ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی مدت میں دو برس کا اضافہ کرکے جون 2026 تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے متعلق حکومت سندھ کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ابھی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ منصوبہ جون 2026 تک مکمل ہوگا یا اس کی لاگت میں مزید کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
ملیر ہالٹ سے صفورا چورنگی یونیورسٹی روڈ سے نمائش تک 22 سے 24 کلومیٹر پر محیط یہ منصوبہ اگر مکمل ہوچکا ہوتا تو اس سے یومیہ ساڑھے تین سے چار لاکھ افراد کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت فراہم ہوتی۔ لیکن گزشتہ پانچ سال کی مدت میں اس منصوبے پر تقریباً 15 کام مکمل ہوا ہے جو عوام کو فائدہ دینے کے بجائے عوام کے لئے عذاب جان بناہوا ہے کیونکہ یونیورسٹی روڈ پر جو کھدائی کی گئی ہے اس سے نہ صرف ٹریفک کا جام رہنا معمول بن گیا ہے بلکہ آئے دن حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اور کئی افراد ریڈ لائن منصوبے کے لئے کی گئی کھدائی کے کھڈوں میں گر کر اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔
اس منصوبے کے متعلق حکومت سندھ کی نااہلی اور بدانتظامی کی بات کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جس کا اندازہ خود اس منصوبے کے لئے فنڈنگ فراہم کرنے والے مالیاتی ادارے ایشیائی ترقیاتی بینک کی اپنی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ مذکورہ مالیاتی ادارہ اس منصوبے کو خطرے سے دوچار (At risk) بھی قرار دے چکا ہے۔ اور منصوبے میں تاخیر کا ذمہ دار ایشیائی بینک کے حکام حکومت سندھ کو قرار دے چکے ہیں۔ اور جہاں تک اس منصوبے کی بات ہے تو اب اس منصوبے کے متعلق ٹھیکیداروں سے ازسرنو معاہدہ بھی ہوگا کیونکہ منصوبے میں تاخیر کے باعث ٹھیکیدار نے واضح کردیا تھا کہ وہ اب مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ جہاں تک حکومت سندھ کی بات ہے تو منصوبے کی لاگت بڑھنے کے باعث حکومت سندھ نے ٹھیکیدار کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اب مختلف آئٹمز کے متعلق منصوبے کے نظر ثانی شدہ تخمینے کے مطابق ٹھیکیدار کو رقم ادا ہوگی۔